Doure Hazir Aur Paigame Karbala / دور حاضر اور پیغام کربلا
دور حاضر اور پیغام کربلا.
وطن عزیز کے حالات ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ماحول ناگفتہ بہ اور ناخوشگوار ہوتا چلا جارہا ہے۔1857 اور 1947 کی خونی پرچھائیاں ایک بار پھر ہند کی سر زمین پر پڑتی نظر آرہی ہیں۔
ایسی صورت حال میں وقت اب ہم سے کچھ اور تقاضہ کررہا ہے.......سیرت نبویﷺ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔۔۔۔۔ہر مسئلے کا حل اگر صبر و تحمل، حلم و بردباری، عفو و درگزر، اور گفت و شنید کی میز پر ہونا ممکن ہوتا تو رحمت للعالمین ﷺ جیسی عظیم ہستی کو اپنے دل نازک پر سترہ جنگوں کا بوجھ نہ برداشت کرنا پڑتا۔
اسلام کی سربلندی کا راز ایثار، قربانی، جدوجہد اور اسی میں تھا کہ مسلمانوں نے اپنے سروں کا نذرانہ پیش کرنے میں کبھی جھجھک محسوس نہیں کی۔کسی طرح کا خوف ان کے آڑے نہ آیا۔مال،اولاد اور دنیا کی محبت نے انھیں دین کے معاملے میں مصلحت کوش نہ ہونے دیا۔
یہ کوئی لمحاتی، وقتی، سرسری یا یوں ہی کی جانے والی جذباتی باتیں نہیں ہیں بلکہ بہت غور و فکر کے بعد نباض قوم علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:
کہ خوں صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اب ہمیں پچاس سال ماحول بنانے کے لیے نہیں ملنے والے۔۔۔۔ہم نے مواقع ضایع کیے ہیں۔۔۔۔صرف "پدرم سلطان بود" کے جلسے ، سیمینار اور مشاعرے ہی کرتے رہے۔ بے شک! کبھی خطابت وشاعری نے ہمارے اندر جوش وجذبے اور اسلامی حمیت و غیرت کی روح پھونک دی تھی مگر دور حاضر کی شعلہ بیان خطابت اور مسحور کن شاعری نے ہمیں منجمد، بے عمل اور حقیقت کی دنیا سے پرے کردیا ہے۔ ہماری پیٹھ اب دیوار سے لگ چکی ہے۔فلسطین، شام، برما سے ہوتے ہوئے ہند کی شان، جنت نشان کشمیر کی تباہی و بربادی تک نوبت آچکی۔مگر ہمارے سارے خواص اور قائدین کو سانپ سونگھ چکا ہے۔ یا وہ سمجھ رہے ہیں کہ سب خیریت ہے۔ مسلم جیالے اسی میں مست ہیں کہ ہمارا گھر تو محفوظ ہے۔ لیکن مظلوم مسلمانوں کی چیخیں آواز دے رہی ہیں :
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
اس لیے للہ! صاحبان استطاعت اب تو سر جوڑ کر بیٹھیں۔ کچھ لائحہ عمل تیار کریں۔قوم کے جوانوں کو جھنجھوڑیں،جگائیں اور حوصلہ دیں۔ان کے اندر کا خوف دور کریں۔ انھیں بتائیں کہ ان کے رب کا فرمان ہے:
"أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَٱللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ"(سورہ توبہ:١٣) *کیا تم ان سے ڈرتے ہو جبکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو بشرطیکہ تم مومن ہو۔
دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: "فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ"(آل عمران:175)
تم ان سے مت ڈرا کرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو اگر تم مومن ہو۔
مگر افسوس! خوف الہٰی کے نہ ہونے سے ہمارے اندر زمانے بھر کا خوف سماگیا ہے۔ مال، اولاد اور دنیا کی محبت نے ہمیں بزدل و ناکارہ بنادیا ہے۔ قرآن مجید نے "إِنَّمَآ أَمْوَٰلُكُمْ وَأَوْلَٰدُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ "(سورہ تغابن:15)(تمہارے مال اور تمہاری اولاد محض آزمائش ہے) کہہ کر ہمیں یہی سمجھایا ہے۔
نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ”قریب ہے کہ دُنیا کی قومیں تم پر یوں ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے کھانے کے تھال پر ٹوٹ پڑتے ہیں“ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول کیا اس لیے کہ تب ہم بہت تھوڑے ہوں گے؟ فرمایا ”نہیں نہیں! اس روز تعداد میں تو تم بہت زیادہ ہو گے۔ مگر تم خس وخاشاک ہوگے جیسے خس وخاشاک سیلاب (کی سطح) پر ہوا کرتے ہیں۔ خدا تمہارے دشمنوں کے سینوں سے تمہاری ہیبت ختم کردے گا اور تمہارے دلوں میں وَھَن(کمزوری) ڈال دے گا صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول یہ وَھَن کیا ہوگا؟ فرمایا:
”حب الدنیا وکراھیۃ الموت“دُنیا پہ ریچھ جانا اور موت سے جی چرانا-
(اخرجہ احمد و ابوداؤد)
قرآن وحدیث کی یہ سچائیاں آج آئینے کی طرح ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔مگر ہماری آنکھوں پر غفلت کی ایسی پٹی پڑی ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا۔
ایک مسلمان کی ذمہ داریوں میں اسلام کی شوکت و نصرت کے لیے جدوجہد اور اس کی رگوں میں خون دینا بھی شامل ہے۔ مولانا محمد علی جوہر کا یہ مشہور زمانہ شعر صرف مجلس لوٹنے کے لیے نہیں ہے کہ :
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
بزدلی اور کم ہمتی کے اس دور میں امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت اور ان کے ایثار و قربانی کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کیونکہ۔۔۔۔۔حسین رضائے الٰہی کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔۔۔۔۔حسین مقام تسلیم ورضا کے مسند نشین ہیں۔۔۔۔۔حسین عزم و حوصلہ اور راہ عزیمت کے ایک سنگ میل ہیں۔۔۔۔۔حسین ابتلا و آزمائش میں ثابت قدم رہنے والے ایک مرد جلیل ہیں۔۔۔۔۔حسین باطل قوتوں سے لوہا لینے والوں کے لیے اعلیٰ نظیر ہیں۔۔۔۔۔حسین صبر واستقامت کی ایک زندہ و جاوداں تفسیر ہیں۔۔۔۔۔حسین کی شہادت قیامت تک خواب غفلت کے شکار ملت کے نوجوانوں کو جھنجھوڑتی رہے گی۔ اسی مفہوم کو حکیم الامت علامہ اقبال رحمہ اللہ نے یوں پیش کیا ہے :
رمز قرآں از حسین آموختیم
ز آتش او شعلہ ہا اندوختیم
خون او تفسیر ایں اسرار کرد
ملت خوابیدہ را بیدار کرد
اے کاش! حسین اعظم کے نام پر لہو و لعب، بدعات وخرافات اور کھیل تماشہ کرنے والے ہمارے نوجوان بھی اسے سمجھ پاتے۔ یزیدیت سے نکل کر حسینیت کے پرچم تلے یہ امت مجتمع ہوتی- اس موقع پر لایعنی کاموں کے بجائے نوجوان فن سپہ گیری سیکھتے۔ کربلا کے جیالوں اور اہل بیت رسول کی زندگی سے درس لیتے، مگر ہائے افسوس!
ماتم سرائے دہر میں ایسے بھی لوگ ہیں
نام حسین لب پہ ہے خو ہے یزید کی
حسین کو یزید نہیں بلکہ کردار یزید سے عداوت تھی۔اس لیے ایک مومن کی جنگ بھی صرف یزید سے نہیں بلکہ ہر اس شخص سے ہونی چاہیے جس کا کردار یزید جیسا ہو :
یزید و شمر کی فطرت نہ بدلی ہے نہ بدلے گی
حسینی خوئے تسلیم و رضا کچھ اور کہتی ہے
حرم کی پاسبانی ابابیلیں بھی کرلیں گی
مگر خاک زمین کربلا کچھ اور کہتی ہے
محرم الحرام کا یہ مہینہ ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ وقت کے یزید نے بظاہر اہل حق کے لیے تمام راستے ایک بار پھر مسدود کردیئے ہیں، بزدلی و کم ہمتی کے اس دور میں اب پھر ایک کربلا مسلمانوں کے سامنے ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آج کون "حر بن یزید، حبیب بن مظاہر اور زہیر بن قین" جیسا سچا حسینی بن کر اسلام کے تحفظ، دین کی سربلندی اور رضائے الہی کا پیکر بن کر سر ہتھیلی پر لیے "غلامان حسین" کی فہرست میں اپنا نام درج کرانے آگے آتا ہے۔
کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی
آزادی حیات کا یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر ترا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
وطن عزیز کے حالات ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ماحول ناگفتہ بہ اور ناخوشگوار ہوتا چلا جارہا ہے۔1857 اور 1947 کی خونی پرچھائیاں ایک بار پھر ہند کی سر زمین پر پڑتی نظر آرہی ہیں۔
ایسی صورت حال میں وقت اب ہم سے کچھ اور تقاضہ کررہا ہے.......سیرت نبویﷺ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔۔۔۔۔ہر مسئلے کا حل اگر صبر و تحمل، حلم و بردباری، عفو و درگزر، اور گفت و شنید کی میز پر ہونا ممکن ہوتا تو رحمت للعالمین ﷺ جیسی عظیم ہستی کو اپنے دل نازک پر سترہ جنگوں کا بوجھ نہ برداشت کرنا پڑتا۔
اسلام کی سربلندی کا راز ایثار، قربانی، جدوجہد اور اسی میں تھا کہ مسلمانوں نے اپنے سروں کا نذرانہ پیش کرنے میں کبھی جھجھک محسوس نہیں کی۔کسی طرح کا خوف ان کے آڑے نہ آیا۔مال،اولاد اور دنیا کی محبت نے انھیں دین کے معاملے میں مصلحت کوش نہ ہونے دیا۔
یہ کوئی لمحاتی، وقتی، سرسری یا یوں ہی کی جانے والی جذباتی باتیں نہیں ہیں بلکہ بہت غور و فکر کے بعد نباض قوم علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:
کہ خوں صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اب ہمیں پچاس سال ماحول بنانے کے لیے نہیں ملنے والے۔۔۔۔ہم نے مواقع ضایع کیے ہیں۔۔۔۔صرف "پدرم سلطان بود" کے جلسے ، سیمینار اور مشاعرے ہی کرتے رہے۔ بے شک! کبھی خطابت وشاعری نے ہمارے اندر جوش وجذبے اور اسلامی حمیت و غیرت کی روح پھونک دی تھی مگر دور حاضر کی شعلہ بیان خطابت اور مسحور کن شاعری نے ہمیں منجمد، بے عمل اور حقیقت کی دنیا سے پرے کردیا ہے۔ ہماری پیٹھ اب دیوار سے لگ چکی ہے۔فلسطین، شام، برما سے ہوتے ہوئے ہند کی شان، جنت نشان کشمیر کی تباہی و بربادی تک نوبت آچکی۔مگر ہمارے سارے خواص اور قائدین کو سانپ سونگھ چکا ہے۔ یا وہ سمجھ رہے ہیں کہ سب خیریت ہے۔ مسلم جیالے اسی میں مست ہیں کہ ہمارا گھر تو محفوظ ہے۔ لیکن مظلوم مسلمانوں کی چیخیں آواز دے رہی ہیں :
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
اس لیے للہ! صاحبان استطاعت اب تو سر جوڑ کر بیٹھیں۔ کچھ لائحہ عمل تیار کریں۔قوم کے جوانوں کو جھنجھوڑیں،جگائیں اور حوصلہ دیں۔ان کے اندر کا خوف دور کریں۔ انھیں بتائیں کہ ان کے رب کا فرمان ہے:
"أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَٱللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ"(سورہ توبہ:١٣) *کیا تم ان سے ڈرتے ہو جبکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو بشرطیکہ تم مومن ہو۔
دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: "فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ"(آل عمران:175)
تم ان سے مت ڈرا کرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو اگر تم مومن ہو۔
مگر افسوس! خوف الہٰی کے نہ ہونے سے ہمارے اندر زمانے بھر کا خوف سماگیا ہے۔ مال، اولاد اور دنیا کی محبت نے ہمیں بزدل و ناکارہ بنادیا ہے۔ قرآن مجید نے "إِنَّمَآ أَمْوَٰلُكُمْ وَأَوْلَٰدُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ "(سورہ تغابن:15)(تمہارے مال اور تمہاری اولاد محض آزمائش ہے) کہہ کر ہمیں یہی سمجھایا ہے۔
نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ”قریب ہے کہ دُنیا کی قومیں تم پر یوں ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے کھانے کے تھال پر ٹوٹ پڑتے ہیں“ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول کیا اس لیے کہ تب ہم بہت تھوڑے ہوں گے؟ فرمایا ”نہیں نہیں! اس روز تعداد میں تو تم بہت زیادہ ہو گے۔ مگر تم خس وخاشاک ہوگے جیسے خس وخاشاک سیلاب (کی سطح) پر ہوا کرتے ہیں۔ خدا تمہارے دشمنوں کے سینوں سے تمہاری ہیبت ختم کردے گا اور تمہارے دلوں میں وَھَن(کمزوری) ڈال دے گا صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول یہ وَھَن کیا ہوگا؟ فرمایا:
”حب الدنیا وکراھیۃ الموت“دُنیا پہ ریچھ جانا اور موت سے جی چرانا-
(اخرجہ احمد و ابوداؤد)
قرآن وحدیث کی یہ سچائیاں آج آئینے کی طرح ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔مگر ہماری آنکھوں پر غفلت کی ایسی پٹی پڑی ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا۔
ایک مسلمان کی ذمہ داریوں میں اسلام کی شوکت و نصرت کے لیے جدوجہد اور اس کی رگوں میں خون دینا بھی شامل ہے۔ مولانا محمد علی جوہر کا یہ مشہور زمانہ شعر صرف مجلس لوٹنے کے لیے نہیں ہے کہ :
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
بزدلی اور کم ہمتی کے اس دور میں امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت اور ان کے ایثار و قربانی کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کیونکہ۔۔۔۔۔حسین رضائے الٰہی کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔۔۔۔۔حسین مقام تسلیم ورضا کے مسند نشین ہیں۔۔۔۔۔حسین عزم و حوصلہ اور راہ عزیمت کے ایک سنگ میل ہیں۔۔۔۔۔حسین ابتلا و آزمائش میں ثابت قدم رہنے والے ایک مرد جلیل ہیں۔۔۔۔۔حسین باطل قوتوں سے لوہا لینے والوں کے لیے اعلیٰ نظیر ہیں۔۔۔۔۔حسین صبر واستقامت کی ایک زندہ و جاوداں تفسیر ہیں۔۔۔۔۔حسین کی شہادت قیامت تک خواب غفلت کے شکار ملت کے نوجوانوں کو جھنجھوڑتی رہے گی۔ اسی مفہوم کو حکیم الامت علامہ اقبال رحمہ اللہ نے یوں پیش کیا ہے :
رمز قرآں از حسین آموختیم
ز آتش او شعلہ ہا اندوختیم
خون او تفسیر ایں اسرار کرد
ملت خوابیدہ را بیدار کرد
اے کاش! حسین اعظم کے نام پر لہو و لعب، بدعات وخرافات اور کھیل تماشہ کرنے والے ہمارے نوجوان بھی اسے سمجھ پاتے۔ یزیدیت سے نکل کر حسینیت کے پرچم تلے یہ امت مجتمع ہوتی- اس موقع پر لایعنی کاموں کے بجائے نوجوان فن سپہ گیری سیکھتے۔ کربلا کے جیالوں اور اہل بیت رسول کی زندگی سے درس لیتے، مگر ہائے افسوس!
ماتم سرائے دہر میں ایسے بھی لوگ ہیں
نام حسین لب پہ ہے خو ہے یزید کی
حسین کو یزید نہیں بلکہ کردار یزید سے عداوت تھی۔اس لیے ایک مومن کی جنگ بھی صرف یزید سے نہیں بلکہ ہر اس شخص سے ہونی چاہیے جس کا کردار یزید جیسا ہو :
یزید و شمر کی فطرت نہ بدلی ہے نہ بدلے گی
حسینی خوئے تسلیم و رضا کچھ اور کہتی ہے
حرم کی پاسبانی ابابیلیں بھی کرلیں گی
مگر خاک زمین کربلا کچھ اور کہتی ہے
محرم الحرام کا یہ مہینہ ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ وقت کے یزید نے بظاہر اہل حق کے لیے تمام راستے ایک بار پھر مسدود کردیئے ہیں، بزدلی و کم ہمتی کے اس دور میں اب پھر ایک کربلا مسلمانوں کے سامنے ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آج کون "حر بن یزید، حبیب بن مظاہر اور زہیر بن قین" جیسا سچا حسینی بن کر اسلام کے تحفظ، دین کی سربلندی اور رضائے الہی کا پیکر بن کر سر ہتھیلی پر لیے "غلامان حسین" کی فہرست میں اپنا نام درج کرانے آگے آتا ہے۔
کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی
آزادی حیات کا یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر ترا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
✒
سیف الدین اصدق غفرلہ
بانی و سربراہ تحریک پیغام اسلام
جمشیدپور
4,محرم الحرام 1441ھ
سیف الدین اصدق غفرلہ
بانی و سربراہ تحریک پیغام اسلام
جمشیدپور
4,محرم الحرام 1441ھ
نوٹ: برائے مہربانی علما و ائمہ حضرات جمعہ میں اس موضوع پر حذف و اضافہ کے ساتھ بیان فرمائیں اور نوجوان اسے ذمہ دارانہ قوم وملت تک پہنچانے کی کوشش کریں۔
اس مضمون کا ہندی ایڈیشن بھی ان شاء اللہ کل حاضر کیا جائے گا تاکہ عام غیر اردو داں طبقے تک اسے پہنچایا جاسکے۔
والسلام (اصدق)
اس مضمون کا ہندی ایڈیشن بھی ان شاء اللہ کل حاضر کیا جائے گا تاکہ عام غیر اردو داں طبقے تک اسے پہنچایا جاسکے۔
والسلام (اصدق)